رخ پاکستان: جاپان میں 56 سال سے جاری ایک قانونی جنگ کے بعد 81 سالہ ایوائو ہاکاماتا کو سزائے موت سے رہائی مل گئی، جسے 1968 میں چار افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی 91 سالہ بہن ہیڈیکو ہاکاماتا نے اپنی نصف زندگی اپنے بھائی کی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش میں صرف کردی۔
ہیڈیکو نے ایک قانونی معاون کے طور پر مقدمے کی پیروی کی اور بالآخر اپنے بھائی کو انصاف دلانے میں کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ جب ایوائو کو رہائی کی خبر ملی تو وہ حیران اور خاموش رہ گئے، جیسے انہیں یقین ہی نہ ہو۔
مزید پڑھیں: معروف صحافی ارشاد بھٹی نے دوسری شادی کرنے کی وجہ بتا دی
جاپان میں سزائے موت کے قیدیوں کو صرف چند گھنٹے پہلے پھانسی کی اطلاع دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ہر روز ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں کہ شاید آج ان کا آخری دن ہو۔ انسانی حقوق کے ماہرین اس طرز عمل کو غیر انسانی اور ظالمانہ قرار دیتے ہیں۔
ایوائو ہاکاماتا نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ قید تنہائی میں گزارتے ہوئے پھانسی کے انتظار میں گزارا، حالانکہ وہ بے گناہ تھے۔
1966 میں ایوائو کے کام کی جگہ پر، ان کے باس، اس کی بیوی، اور دو بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ایک سال بعد ایوائو کے کپڑے جائے وقوعہ کے قریب سے ملے، اور ان پر قتل، گھر کو آگ لگانے، اور نقدی چوری کرنے کا الزام لگایا گیا۔ 1980 میں انہیں سزائے موت سنائی گئی۔
ایوائو نے کئی بار اپنے مقدمے کی دوبارہ سماعت کی درخواست دی، جو پہلی بار 2014 میں منظور ہوئی اور انہیں اسی سال جیل سے رہا کر دیا گیا۔ تاہم، کیس کی سماعت 2023 میں دوبارہ شروع ہوئی اور ستمبر 2024 میں عدالت نے انہیں بے گناہ قرار دے دیا۔
فیصلہ سناتے ہوئے جج نے کہا کہ تفتیشی حکام نے ثبوتوں میں ردوبدل کیا اور کپڑے خود چھپائے، جس سے ظاہر ہوا کہ مقدمہ جعلی تھا۔ اس فیصلے نے جاپان کی تاریخ کی طویل ترین قانونی لڑائی کا خاتمہ کر دیا اور ایوائو ہاکاماتا کو بالآخر انصاف ملا۔