امریکہ نے اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے 6 رہنماؤں پر فردجرم عائد کر دی

امریکہ نے اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے 6 رہنماؤں پر فردجرم عائد کر دی

امریکہ نے اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے 6 رہنماؤں پر فردجرم عائد کر دی

امریکہ نے اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے 6 رہنماؤں پر فردجرم عائد کر دی

امریکی محکمہ انصاف نے حماس کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف گزشتہ برس 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں ہونے والے حملوں میں ان کے کردار پر الزامات عائد کیے ہیں۔ اس فیصلے کو حماس کے خلاف ایک بڑے علامتی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

حماس کے چھ اہم رہنماؤں کو الزامات میں نامزد کیا گیا ہے، جن میں سے تین شہید ہو چکے ہیں۔ شہید ہونے والے رہنماؤں میں اسماعیل ہنیہ بھی شامل ہیں،جنہیں جولائی میں تہران میں شہید کیا گیا،محمد الضیف، جو جولائی میں اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے اور مروان عیسیٰ، جنہیں اسرائیل نے مارچ میں قتل کیا۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں سیلاب کی وجہ سے 20 لاکھ بچوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی

زندہ رہنے والے ملزمان میں حماس کے نئے رہنما یحییٰ سنوار شامل ہیں، جن کا خیال ہے کہ وہ غزہ میں مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ خالد مشعل، جو دوحہ میں رہائش پذیر ہیں اور حماس کے ڈائسپورا آفس کے سربراہ ہیں اور لبنان میں مقیم حماس کے سینئر عہدیدار علی برکہ بھی شامل ہیں۔

امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے کہا ہے کہ ان رہنماؤں پر الزامات ہیں کہ انہوں نے ہتھیار، سیاسی حمایت ،ایران اور حزب اللہ کی مدد سے اسرائیل کو تباہ کرنے اور شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش کی۔

امریکی محکمہ انصاف نے ان الزامات کو فروری میں عائد کیا تھا لیکن اسماعیل ہنیہ کے پکڑے جانے کی امید میں ان الزامات کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ جبکہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں قتل کر دیا گیا تھا۔ امریکی محکمہ انصاف نے ان الزامات کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ الزامات اس وقت سامنے آئے ہیں جب وائٹ ہاؤس جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر مصر اور قطر کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ غزہ میں لڑائی کو ختم کیا جا سکے۔

بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے رامی خوری کے مطابق، حماس کے رہنماؤں پر الزامات عائد کرنے کا امریکی فیصلہ جنگ بندی مذاکرات پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اسرائیل کی کارروائیوں کی بھرپور حمایت کر رہا ہے اور حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔

رامی خوری نے یہ بھی کہا کہ امریکہ حماس کو اس کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہتا ہے، لیکن اسرائیل کو اس کے عمل کے لیے جوابدہ نہیں ٹھہرانا چاہتا۔ اس سے دنیا کے بہت سے ممالک کو لگتا ہے کہ امریکہ غزہ میں اسرائیل کے نسل کشی کے عمل میں شریک ہے اور ایک ایماندار ثالث نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں