فخر زمان کو سینٹرل کنٹریکٹ نہ ملنے کی وجہ سامنے آگئی

فخر زمان

میٹنگ کے دوران ایک کرکٹر نے پی سی بی حکام سے بولنے کی اجازت مانگی، اور حکام نے سوچا کہ وہ ان کی تعریف کرے گا، مگر اس کرکٹر نے لیگز میں این او سی کے مسائل پر بات شروع کر دی۔ سب خاموشی سے سنتے رہے مگر دو لوگوں کے چہرے بگڑ گئے۔ یہ دو لوگ پی سی بی کے اہم حکام، سی او او سلمان نصیر اور ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ تھے، جن کا بورڈ پر مضبوط کنٹرول ہے اور جن سے این او سی اور دیگر معاملات میں کھلاڑیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چیئرمین محسن نقوی کرکٹ میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اسی دوران فخر زمان کو یہ پیغام ملا کہ انہوں نے غلط لوگوں سے اختلاف کر لیا ہے۔ انہوں نے بابر اعظم کو ٹیم سے نہ نکالنے کا مشورہ دیا لیکن کچھ دیر بعد بابر کو ڈراپ کر دیا گیا۔ اس سے ایسا لگا کہ فخر نے پی سی بی کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔

مزید پڑھیں: دورہ آسٹریلیا اور زمبابوے، پاکستان کرکٹ ٹیم کے اسکواڈ کا اعلان کر دیاگیا

فخر کے قریبی لوگ خصوصاً ان کے ایجنٹ نے شاید انہیں مشورہ دیا یا ان کی ٹویٹ بنائی لیکن اس سے فخر کو نقصان پہنچا۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ کہیں انہیں استعمال تو نہیں کیا جا رہا۔

کچھ دن پہلے ہی سابق کھلاڑی عاقب جاوید اور یونس خان فخر کو کپتان بنانے کے حامی تھے، لیکن اب انہیں کنٹریکٹ اور اسکواڈ دونوں سے باہر کر دیا گیا۔ فخر کے فٹنس مسائل ضرور ہیں لیکن یہ مسائل اتنے بڑے نہیں کہ انہیں کرکٹ سے باہر رکھا جائے۔ جیسے نعمان علی کو ضرورت پڑنے پر واپس بلا لیا گیا تھا ویسے ہی فخر کے ساتھ بھی کیا جا سکتا تھا مگر ان کے کسی بات پر ناراض ہونے کی وجہ سے انہیں باہر کر دیا گیا۔

اسی طرح شاہین شاہ آفریدی کو اے کی بجائے بی کیٹیگری میں ڈال دیا گیا حالانکہ ان کی کارکردگی بہترین رہی ہے۔ شان مسعود کو انگلینڈ کے خلاف کامیاب کپتانی کے بعد بھی بی کیٹیگری میں ڈالا گیا اور ان کی قیادت کو مشروط کر دیا گیا جس سے لگتا ہے کہ بورڈ خود بھی ان کی کپتانی پر مطمئن نہیں۔

شاداب خان کو بھی اچانک ٹیم سے باہر کر دیا گیا حالانکہ اگر وہ اسکواڈ کے لیے موزوں نہیں تھے تو انہیں سینٹرل کنٹریکٹ کیوں دیا گیا؟ دوسری طرف کچھ سلیکشن کے فیصلے اچھے بھی ہیں، جیسے زمبابوے کے خلاف نوجوانوں کو موقع دینا تاکہ ان کی صلاحیتیں سامنے آ سکیں۔ محمد رضوان اور سلمان علی آغا کو کپتان اور نائب کپتان بنانا بھی اچھا قدم ہے۔

سلیکٹرز کو چاہیے کہ کھلاڑیوں کے ساتھ انصاف کریں اور ان کی خدمات کی قدر کریں۔ فخر جیسے کھلاڑی کم ملتے ہیں اور امید ہے کہ پی سی بی اس فیصلے پر دوبارہ غور کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں