گزشتہ سال کتنے پاکستانیوں کو یو اے ای کے ویزے جاری کئیے گئے؟

یو اے ای

رخ پاکستان: متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے کراچی میں قونصل جنرل ڈاکٹر بخیت عتیق الرمیثی نے پاکستانی شہریوں کو سوشل میڈیا کا احتیاط سے استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد شیئر کرنے سے ان کے ویزے مسترد بھی ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے ایک چینل کو بتایا کہ اگر آپ یو اے ای میں ہیں یا پاکستان میں اور سوشل میڈیا پر لوگوں کو تشدد یا فساد پر اکساتے ہیں تو یہ غلط ہے۔ آپ کو یو اے ای آ کر خوشگوار وقت گزارنا چاہیے اور اپنے کام میں مصروف رہنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف آپ کو ویزا ملے گا بلکہ آپ کی عزت بھی کی جائے گی۔

یو اے ای قونصل جنرل نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا کا ریکارڈ ہمیشہ محفوظ رہتا ہے۔ اس کا غلط استعمال آپ کے لیے خود مشکلات پیدا کر سکتا ہے، اور جب حکومت ایسے لوگوں کو دیکھتی ہے جو سوشل میڈیا پر خراب سرگرمیاں کرتے ہیں، تو پھر سوچا جاتا ہے کہ انہیں یو اے ای کیوں آنے دیا جائے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کا غیر ملکیوں کے لیے 45 ہزار ویزوں کا اعلان

انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے لیے یو اے ای کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں اور یہاں ویزا سینٹرز پاکستانیوں کی مدد کے لیے کھولے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور میں بھی ویزا سینٹر کھولنے کی بات چیت ہو رہی ہے۔

یو اے ای قونصل جنرل نے وضاحت کی کہ یو اے ای کے ویزا کے لیے پاکستانیوں پر کوئی اضافی شرطیں نہیں رکھی گئی ہیں، مگر وہ سوشل میڈیا پر احتیاط برتنے کے لیے آگاہی دے رہے ہیں کیونکہ ہر ملک کے اپنے قوانین ہیں جن کا احترام ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یو اے ای کے صدر اور وزیراعظم نے ملک میں رہنے والے تمام افراد کو بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے اور یہاں 200 سے زیادہ ممالک کے لوگ رہتے ہیں، جنہیں سب کو برابر سمجھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر بخیت عتیق الرمیثی نے کہا کہ یو اے ای میں کام کرنے والے افراد 24 گھنٹے مصروف رہتے ہیں اور سڑکیں بلاک کرنا یا غلط معلومات پھیلانا اس ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔ یو اے ای کے قوانین میں ایسی حرکتوں پر پابندی ہے اور پاکستانیوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سیاست کو اپنے تک رکھیں اسے یو اے ای میں نہ لے کر آئیں۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں 70 ہزار پاکستانیوں کو ورک ویزے جاری کیے گئے اور لاکھوں پاکستانیوں کو ٹورازم ویزے دیے گئے ہیں۔ پاکستانی تاجروں کو خصوصی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں اور ان کے ویزوں کے معاملات براہ راست یو اے ای کی وزارت خارجہ دیکھتی ہے جس میں کسی بروکر یا مڈل مین کا کردار نہیں ہوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں