رخ پاکستان: بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہندو مسلم جھگڑے میں 3 مسلمان نوجوان شہید ہو گئے اور کئی افراد زخمی ہوئے۔ مرادآباد کے کمشنر اننیا کمار کے مطابق شہید ہونے والوں کے نام نعمان، بلال، اور نعیم ہیں۔ واقعے میں 20 سے 22 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے، جن میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) بھی شامل ہیں، جبکہ 15 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
واقعے کی تفصیلات:
مقامی عدالت نے حکم دیا تھا کہ شاہی جامع مسجد کا سروے کیا جائے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ہری ہر مندر کی جگہ پر بنی ہے، جسے مغل حکمراں بابر نے 1529 میں تعمیر کروایا تھا۔
سروے کے دوران صبح 7:30 بجے کے قریب سینکڑوں افراد احتجاج کے لیے جمع ہو گئے۔ اسی دوران پتھراؤ اور گاڑیوں کو جلانے کے واقعات پیش آئے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی وجوہات پوسٹ مارٹم کے بعد واضح ہوں گی۔
سیاسی ردعمل:
وزیراعلیٰ اکھلیش یادو: (سماجوادی پارٹی) نے بی جے پی پر الزام لگایا کہ وہ تشدد کروا کر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت پھیلا رہی ہے۔ انہوں نے سروے کو غیر ضروری قرار دیا۔
مایاوتی: (بی ایس پی) نے بھی سروے کے وقت کو مشکوک قرار دیا اور ریاستی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موری نے کہا کہ عدالت کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی
پس منظر:
مسجد کے مقام پر مندر ہونے کا تنازع نیا نہیں ہے۔ 1976 میں بھی ایک بڑا واقعہ ہوا تھا جب چند افراد مسجد میں پوجا کرنے کے لیے داخل ہوئے اور مسجد کے امام کو قتل کر دیا، جس کے بعد فسادات ہوئے۔
1991 کے عبادت گاہ قانون کے تحت طے ہوا تھا کہ 1947 میں جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، وہ اسی حالت میں رہے گی۔ مگر حالیہ سروے کے فیصلے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
دیگر حقائق:
سروے مکمل کر لیا گیا ہے اور اس کی ویڈیو گرافی بھی کی گئی ہے۔ سروے کمشنر 29 نومبر کو اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں گے۔
سنبھل میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، جو حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔
یہ تنازع اترپردیش میں سیاسی اور سماجی کشیدگی کا ایک اور پہلو بن گیا ہے، جس میں مذہبی مقامات پر ملکیت کے جھگڑے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔