جو شخص فوج میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے ماتحت کیسے ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ

justice for everyone

رخ پاکستان: سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں کی سماعت ہوئی۔

حکومتی وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں دو باتیں کہی ہیں: ایک میں آرمی ایکٹ کی دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا، اور دوسرے میں ملزمان کی ملٹری کورٹس میں حراست پر بات کی گئی۔

مزید پڑھیں: حکومت اور پی ٹی آئی کے رابطے بحال، مذاکرات کیلئے پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرنے کی تجویز مان لی گئی

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا عدالت نے آرمی ایکٹ کو آئین کے آرٹیکل 8 (شہریوں کے بنیادی حقوق) کے خلاف قرار دیا، اور اگر دیا تو اس کی کیا وضاحت ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے فیصلے کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ جو شخص فوج کا حصہ نہیں، وہ فوجی قوانین کے تحت کیسے آ سکتا ہے؟ کیا کسی شہری پر آرمی کے قوانین لاگو کرنا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کچھ خاص حالات میں آرمی ایکٹ کا اطلاق شہریوں پر ہو سکتا ہے، اور ملٹری ٹرائل میں بھی منصفانہ ٹرائل کے اصول شامل ہوتے ہیں۔

عدالت نے مزید سوال کیا کہ کیا آرمی ایکٹ عام شہریوں کے بنیادی حقوق ختم کرتا ہے؟ جیسے اگر فوجی تنصیبات پر حملہ ہو تو مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلایا جاتا ہے، لیکن یہی عمل دیگر تنصیبات پر ہو تو کیس عام عدالت میں چلتا ہے۔

خواجہ حارث نے وضاحت کی کہ یہ سب قانون کے تحت طے ہوتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ فوج کا ڈسپلن عوام سے الگ رہنا چاہیے، اور اگر عام شہریوں کو بھی فوجی قوانین میں شامل کیا گیا تو یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے نو اور دس مئی کے واقعات کی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کر لیں اور کیس کی سماعت جمعے تک ملتوی کر دی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں