پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلیے سول نافرمانی کا اعلان واپس لینے کی شرط رکھ دی

govt and pti

رخ پاکستان: حکومتی اراکین اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ پی ٹی آئی پہلے سول نافرمانی کی تحریک ختم کرے۔

وزیرِاعظم کے مشیر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ مذاکرات کی پیشکش کرنے پر پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ حکومت کی کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسائل بات چیت سے ہی حل ہو سکتے ہیں، لیکن پی ٹی آئی کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔

مزید پڑھیں: جو شخص فوج میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے ماتحت کیسے ہوسکتا ہے؟ سپریم کورٹ

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطے ہمیشہ رہتے ہیں، لیکن رابطوں کو مذاکرات نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد آنے تک پی ٹی آئی سے رابطے میں تھے، مگر یہ رابطے مذاکرات نہیں تھے۔

رانا ثنا اللہ نے یاد دلایا کہ وزیرِاعظم نے پہلے ہی پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی اور کہا تھا کہ آئیں بیٹھ کر بات کریں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پہلے اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی بات کر رہی تھی، لیکن اب مذاکرات کے لیے خود حکومت سے رابطہ کرنے کا سوچ رہی ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سول نافرمانی کی تحریک ختم کیے بغیر مذاکرات ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی بات چیت چاہتی ہے تو حکومت تیار ہے، لیکن پہلے اعتماد بحال کرنا ہوگا۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ بات چیت کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں اور حکومت کو اعتماد کا ماحول بنانا ہوگا تاکہ مذاکرات آگے بڑھ سکیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر طلال چوہدری نے مذاکرات کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوشش صرف فیض حمید کو بچانے کے لیے کی جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما شوکت یوسفزئی نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ مذاکرات کریں ورنہ 14 دسمبر سے سول نافرمانی شروع کر دی جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں