رخ پاکستان: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومت کے درمیان باضابطہ مذاکرات پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں شروع ہوئے۔ یہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی میں صرف تین ارکان شریک ہوئے، جن میں سابق اسپیکر اسد قیصر، سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا، اور ایم ڈبلیو ایم کے علامہ راجہ ناصر عباس شامل تھے۔ دیگر ارکان اپنی عدالتی پیشیوں اور دیگر مصروفیات کے باعث شرکت نہ کر سکے۔
سابق اسپیکر اسد قیصر نے اجلاس کے دوران متعدد مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کمیٹی کے ارکان عدالتوں میں مصروف ہیں، اور مذاکرات کے لیے سیاسی ماحول کو ٹھنڈا کرنا ضروری ہے۔
اجلاس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے یورپی یونین کے جی ایس پی پلس سے متعلق اعلامیہ اور امریکا کی جانب سے میزائل پروگرام پر پابندیوں کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ وزیر خارجہ نے پی ٹی آئی پر الزام لگایا کہ بیرون ملک پاکستان کے خلاف مہم چلانا وطن دشمنی کے مترادف ہے۔
اسد قیصر نے جواب دیا کہ یورپی یونین کے اعلامیے کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نتیجہ ہے جو ملک میں گزشتہ دو سال سے جاری ہیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ کبھی پاکستان کے خلاف لابنگ کی جاتی ہے اور کبھی ترسیلات زر روکنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کو ایسے اقدامات ترک کرنا ہوں گے۔
پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی نے کہا کہ تحریک انصاف ہمیشہ مذاکرات کے لیے تیار رہی ہے، اسی لیے سول نافرمانی کی تحریک کو مؤخر کیا گیا۔ تاہم حکومت کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان کے ابتدائی مطالبات پر پیش رفت دکھانی ہوگی۔ کمیٹی نے یہ شکوہ بھی کیا کہ گزشتہ تین ماہ سے عمران خان سے سیاسی ملاقاتیں نہیں ہو سکیں۔ انہوں نے جیل مینول کے مطابق جیل میں ملاقات کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔
اجلاس کے اختتام پر فیصلہ کیا گیا کہ کرسمس کی تعطیلات اور بے نظیر بھٹو کی برسی کے باعث اگلا اجلاس 2 جنوری کو ہوگا۔